EN हिंदी
رنگ خوشبو اور موسم کا بہانا ہو گیا | شیح شیری
rang KHushbu aur mausam ka bahana ho gaya

غزل

رنگ خوشبو اور موسم کا بہانا ہو گیا

خالد غنی

;

رنگ خوشبو اور موسم کا بہانا ہو گیا
اپنی ہی تصویر میں چہرہ پرانا ہو گیا

شیلف پر رکھی کتابیں سوچتی ہیں رات دن
گھر سے دفتر کا سفر کتنا سہانا ہو گیا

کس قدر شہرت ہے ان ہنستے ہوئے لمحات میں
آنکھ سے گزرا ہر اک منظر پرانا ہو گیا

اب مری تنہائی بھی مجھ سے بغاوت کر گئی
کل یہاں جو کچھ ہوا تھا سب فسانا ہو گیا

یاد آتی جب کبھی احساس کی نیلم پری
گھر کے کالے دیو کا قصہ پرانا ہو گیا