رنگ جدا آہنگ جدا مہکار جدا
پہلے سے اب لگتا ہے گلزار جدا
نغموں کی تخلیق کا موسم بیت گیا
ٹوٹا ساز تو ہو گیا تار سے تار جدا
بے زاری سے اپنا اپنا جام لیے
بیٹھا ہے محفل میں ہر مے خوار جدا
ملا تھا پہلے دروازے سے دروازہ
لیکن اب دیوار سے ہے دیوار جدا
یارو میں تو نکلا ہوں جاں بیچنے کو
تم کوئی اب سوچو کاروبار جدا
سوچتا ہے اک شاعر بھی اک تاجر بھی
لیکن سب کی سوچ کا ہے معیار جدا
کیا لینا اس گرگٹ جیسی دنیا سے
آئے رنگ نظر جس کا ہر بار جدا
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی گفتار جدا کردار جدا
مل جاتا ہے موقعہ خونی لہروں کو
ہاتھوں سے جب ہوتے ہیں پتوار جدا
کس نے دیا ہے سدا کسی کا ساتھ قتیلؔ
ہو جانا ہے سب کو آخر کار جدا
غزل
رنگ جدا آہنگ جدا مہکار جدا
قتیل شفائی