رنگ گل اور لگا موج صبا اور لگی
کس کے آنے سے گلستاں کی فضا اور لگی
آج مائل ہے وہ اکرام و عنایات پہ کیا
کیوں ہمیں کوچۂ جاناں کی ہوا اور لگی
لڑکھڑانے پہ کسے رقص کا ہوتا ہے گماں
فصل گل آئی تو پھر لغزش پا اور لگی
دل دھڑکنے کے ہیں آداب مگر تیرے حضور
جانے کیوں سینے میں دھڑکن کی ادا اور لگی
کس طرح کہتا کوئی تجھ کو ستم گر اے دوست
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں تیری جفا اور لگی

غزل
رنگ گل اور لگا موج صبا اور لگی
محمود الحسن