رنگ اور روپ کے پردیپ میں کھونے دے مجھے
خود کو چاہت کی چڑھی رو میں ڈبونے دے مجھے
تو اگر خوش ہے تو جا قافیہ پیمائی کر
شعر کو روح کی لڑیوں میں پرونے دے مجھے
پریت کا انت بچھڑنا ہے مگر اور ابھی
اپنی باہوں کے کنول کنڈ میں سونے دے مجھے
چوم کر اس کے مدھر ہونٹوں کی رس ونت لویں
ذہن کو نشوں بھری مے سے بھگونے دے مجھے
کشٹ واجب نہ سہی کلیاں تو کانٹے ہی قبول
نئی رت میں نئے احساس کو بونے دے مجھے
تیرا رشتہ ہے فلک سے تو زمیں کو نہ اجاڑ
نرم مٹی کی مہک من میں سمونے دے مجھے
حافظؔ و میرؔ سے نسبت بھی بجا لیکن اب
خطۂ پاک کی اس خاک کا ہونے دے مجھے
یاد آ جائے نہ جانے اسے بچپن کی لگن
اسی جنگل میں اسی جھیل پہ رونے دے مجھے
حسن تکریم سہی چاہتیں تعظیم سہی
ہاتھ اب آپ شفق تاب میں دھونے دے مجھے
غزل
رنگ اور روپ کے پردیپ میں کھونے دے مجھے
ناصر شہزاد