EN हिंदी
ارم کے نور سے تیرہ مکاں جلائے گئے | شیح شیری
iram ke nur se tera makan jalae gae

غزل

ارم کے نور سے تیرہ مکاں جلائے گئے

رام اوتار گپتا مضظر

;

ارم کے نور سے تیرہ مکاں جلائے گئے
چراغ ہم تھے کہاں کے کہاں جلائے گئے

ہمیں کو اس نے پیمبر کیا مشیعت کا
ہمیں سے راز مشیعت مگر چھپائے گئے

کبھی تو ہم پہ کھلیں گے خوشی کے دروازے
اسی امید پہ ہم تیرے غم اٹھائے گئے

جو کل تلک رہے آسی خطاب محفل میں
وہ لوگ آج ترے نام سے بلائے گئے

اگل رہے تھے جو لاوا غم تعصب کا
ہمارے خوں سے وہ آتش فشاں بجھائے گئے

رہ حیات میں بھڑکی ہے جب نفاق کی آگ
مگر اس آگ کا لقمہ ہمیں بنائے گئے

رفو کیا کیے چاک‌ وفا و تار قبا
وہ روٹھتے رہے اور ہم انہیں منائے گئے