رکھے ہر اک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
ملتی ہے اس کو راہ سے منزل کی آگہی
سیکھا ہے آدمی نے کئی تجربوں کے بعد
طوفان سے ہی ملتی ہے ساحل کی آگہی
اس کا خدا سے رابطہ ہی کچھ عجیب ہے
دنیا کہاں سمجھتی ہے سائل کی آگہی
نظروں کا اعتبار تو ہے پھر بھی میرا دل
ہے اک صحیفہ جس میں مسائل کی آگہی
دن رات جس کے پیار میں رہتی ہوں بے قرار
اس کو نہیں ہے کیوں دل بسمل کی آگہی
یادوں کے اک ہجوم میں رہ کر پتا چلا
تنہائی بھی تو رکھتی ہے محفل کی آگہی
خنجر کا اعتبار نہیں وہ تو صاف ہے
لیکن ملے گی خون سے قاتل کی آگہی
مشق سخن سبیلہؔ نکھارے گی فن کو اور
مطلوب ہے کچھ اور ابھی دل کی آگہی
غزل
رکھے ہر اک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
سبیلہ انعام صدیقی