EN हिंदी
رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی | شیح شیری
rakhte hain dushmani bhi jatate hain pyar bhi

غزل

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی

پرنم الہ آبادی

;

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی
ہیں کیسے غم گسار مرے غم گسار بھی

افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی

پیتا ہوں میں شراب محبت تو کیا ہوا
پیتا ہے یہ شراب تو پروردگار بھی

ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال
دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی

آ کر وہ میری لاش پہ یہ کہہ کے رو دیے
تم سے ہوا نہ آج مرا انتظار بھی

اے دوست بعد مرگ بھی میں ہوں شکستہ حال
دل کی طرح سے ٹوٹا ہوا ہے مزار بھی

پرنمؔ یہ سب کرم ہے قمرؔ کا جو آج کل
ہوتا ہے اہل فن میں تمہارا شمار بھی