رکھتا ہے صلح سب سے دل اس کا پہ مجھ سے جنگ
غیروں کے حق میں موم ہے اور میرے حق میں سنگ
کیسا وصال کس کا فراق اور کہاں کا عشق
تھی عالم جوانی کی بس یہ بھی اک ترنگ
کیا تب ملے گی آہ مجھے آرزوئے دل
مر جائے گی تڑپ کے مرے جی کی جب امنگ
حیراں میں اپنے حال پہ چوں آئینہ نہیں
عالم کے منہ کو دیکھ کے میں رہ گیا ہوں دنگ
آتا ہے کیا نظر اسے شعلہ میں شمع کے
دیتا ہے جان بوجھ کے کیوں اپنا جی پتنگ
لیتا تھا نام غیر نکل آیا میرا نام
آخر جھلک گیا ہے محبت کا رنگ ڈھنگ
واقف نہیں نشاں سے میں اس یار کے حسنؔ
جس کے لئے اڑا دیا سب اپنا نام و ننگ
غزل
رکھتا ہے صلح سب سے دل اس کا پہ مجھ سے جنگ
میر حسن