EN हिंदी
رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ | شیح شیری
rakhta hai sada honT ko jun gul ki kali chup

غزل

رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ

نظیر اکبرآبادی

;

رکھتا ہے صدا ہونٹ کو جوں گل کی کلی چپ
وہ غنچہ دہن آہ یہ سیکھا ہے بھلی چپ

سوتا ہے تو لیتا ہوں میں یوں چوری سے بوسہ
جوں منہ میں کھلا دے کوئی مصری کی ڈلی چپ

منت سے کہا ہم نے تو تم آہ نہ بولے
جب غیر نے کی گدگدی پھر کچھ نہ چلی چپ

پروانے سے عاشق کے تئیں شمع جلا کر
پھر آپ بھی روتی ہے کھڑی بخت جلی چپ

سبزی بھی اگی باغ میں غنچے بھی کھلے آہ
پر اس مری گونگی کے لبوں سے نہ ٹلی چپ

غصے میں رقیب آتا ہے جب بھوت سا بن کر
پڑھتا ہوں میں جب دل میں کھڑا نعت علی چپ

مر جائیں پہ شکوے کی کبھی بات نہ نکلے
یہ ہونٹ وہ ہیں جن میں ازل سے ہے پلی چپ

جس دم یہ خبر جا کے رقیبوں کو ہوئی پھر
بس سنتے ہی سن ہو گئے اور سانس نہ لی چپ

الٹی ہی سمجھ یار کی سنتا ہے نظیرؔ آہ
زنہار نہ کچھ بولیو یاں سب سے بھلی چپ