رہتی ہے صبا جیسے خوشبو کے تعاقب میں
کچھ یوں ہی زمانہ ہے اردو کے تعاقب میں
لوٹے نہیں اب تک وہ برسوں ہوئے نکلے تھے
پازیب کی چاہت میں گھنگرو کے تعاقب میں
اک جادو کی ڈبیا ہے جو ان کا کھلونا ہے
بچے نہیں رہتے اب جگنو کے تعاقب میں
معصوم سی آنکھوں سے اک بوند ہی ٹپکی تھی
بادل امڈ آئے ہیں آنسو کے تعاقب میں
نقالوں کے پیچھے کیوں پھرتے ہو ہنر والو
دیکھا ہے کیا ساگر کو سرجو کے تعاقب میں
افکار کے پھولوں کی وادی ہے ہدف عارفؔ
ہر شاعر اردو ہے خوشبو کے تعاقب میں
غزل
رہتی ہے صبا جیسے خوشبو کے تعاقب میں
عارف انصاری