EN हिंदी
رہتی ہے سب کے پاس تنہائی | شیح شیری
rahti hai sab ke pas tanhai

غزل

رہتی ہے سب کے پاس تنہائی

اندر سرازی

;

رہتی ہے سب کے پاس تنہائی
پھر بھی ہے کیوں اداس تنہائی

دل نہیں لگتا پھر کہیں اس کا
آ گئی جس کو راس تنہائی

عشق نے پھینکا تھا پہن کے اسے
پہنے ہے جو لباس تنہائی

ساتھ سب کا دیا ہے اب لیکن
خود ہے کتنی اداس تنہائی

زندگی بھر کے ساتھی ہیں میرے
جام ساقی گلاس تنہائی

کون جانے ہوا ہے کیا اندرؔ
رہتی ہے کیوں اداس تنہائی