رہتا ہے کب اک روش پر آسماں
کھاتا ہے چکر پہ چکر آسماں
کر دیا برباد اک دم میں مجھے
کیا کیا تو نے ستم گر آسماں
آہ کرتے ہیں ہزاروں دل فگار
پر نہ ٹوٹا تیرا خنجر آسماں
روند ڈالوں پاؤں کے نیچے تجھے
دل میں آتا ہے جفا گر آسماں
رات کو برساتا ہے پتھر اگر
دن کو برساتا ہے اخگر آسماں

غزل
رہتا ہے کب اک روش پر آسماں
سردار گینڈا سنگھ مشرقی