رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے
لگنے دے ایک اور بھی ضرب شدید اسے
جی ہاں وہ اک چراغ جو سورج تھا رات کا
تاریکیوں نے مل کے کیا ہے شہید اسے
فاقے نہ جھگیوں سے سڑک پر نکل پڑیں
آفت میں ڈال دے نہ یہ بحران عید اسے
فرط خوشی سے وہ کہیں آنکھیں نہ پھوڑ لے
آرام سے سناؤ سحر کی نوید اسے
ہر چند اپنے قتل میں شامل وہ خود بھی تھا
پھر بھی گواہ مل نہ سکے چشم دید اسے
بازار اگر ہے گرم تو کرتب کوئی دکھا
سب گاہکوں سے آنکھ بچا کر خرید اسے
مدت سے پی نہیں ہے تو پھر فائدہ اٹھا
وہ چل کے آ گیا ہے تو کر لے کشید اسے
مشکوک اگر ہے خط کی لکھائی تو کیا ہوا
جعلی بنا کے بھیج دے تو بھی رسید اسے
غزل
رہنے دے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے
بیدل حیدری