رحمتوں میں تری آغوش کی پالے گئے ہم
ایسے مردود ہوئے پھر کہ نکالے گئے ہم
آسمانوں کو سنبھالے رہی قدرت تیری
اتنے سرکش تھے کہ تجھ سے نہ سنبھالے گئے ہم
عشق کی بو تھی تجسس کا نشہ شوق کا رنگ
ساغر گل میں ترے واسطے ڈھالے گئے ہم
تجربات اپنے مقدر میں لیے مرحلہ وار
تیرے بازار تماشا میں اچھالے گئے ہم
جنس احساس کی دوکان پہ سناٹا تھا
کوئی گاہک نہ تھا اس کا تو اٹھا لے گئے ہم
رعب طاری تھا زباں پر ترا مخلوق تھی چپ
ہم تو عاشق تھے غم ہجر سنا لے گئے ہم
لوٹ لے چین کوئی یہ نہ ہوا تھا اب تک
مطمئن رہ گیا وہ اور چرا لے گئے ہم

غزل
رحمتوں میں تری آغوش کی پالے گئے ہم
عفت عباس