رہی اگرچہ نگاروں کی مہربانی بھی
بہت خراب کٹی رات بھی جوانی بھی
تجھے گنوا کے ترے واسطوں کا کیا کرتے
اسی لیے تو نہ رکھی کوئی نشانی بھی
دل و نگاہ کے رستوں میں کون حائل ہے
کہ ہم پہ بند ہوئے روشنی بھی پانی بھی
اگر لبوں سے نہ نکلے اگر دلوں میں رہے
بہت نئی ہے ابھی بات اک پرانی بھی
عذاب صحبت نا جنس کے شکار ہیں ہم
خدا زمیں پہ ہمیں دے ہمارا ثانی بھی

غزل
رہی اگرچہ نگاروں کی مہربانی بھی
اسعد بدایونی