رہے نو روز عشرت آفریں جوش بہار افزا
گل افشاں ہے کرم تیرا چمن میں دہر کے ہر جا
نہ پوچھو کوئی عیش و خرمی کو عہد میں اس کے
کہ جس کے فیض سے گھر گھر ہے دور ساغر صہبا
ارسطو جاہ وہ فرخ نژاد اہل عالم ہے
کہ جس کے فضل و بخشش کا جہاں میں ہے علم برپا
دعا ہے یہ موالی کی تصدق سے ائمہ کے
رکھے سائے میں اپنے لطف کے تجھ کو علی مولیٰ
نہیں کچھ زیب اے مہر سپہر معدلت اس میں
عیاں چنداؔ پہ جو کچھ ہے نوازش یہ کرم فرما
غزل
رہے نو روز عشرت آفریں جوش بہار افزا
ماہ لقا چنداؔ