EN हिंदी
رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر | شیح شیری
rahe jo shab ko hum us gul ke sat koThe par

غزل

رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر

نظیر اکبرآبادی

;

رہے جو شب کو ہم اس گل کے سات کوٹھے پر
تو کیا بہار سے گزری ہے رات کوٹھے پر

یہ دھوم دھام رہی صبح تک اہا ہا ہا
کسی کے اترے ہے جیسے برات کوٹھے پر

مکاں جو عیش کا ہاتھ آیا غیر سے خالی
پٹے کے چلنے لگے پھر تو ہات کوٹھے پر

گرایا شور کیا گالیاں دیں دھوم مچی
عجب طرح کی ہوئی واردات کوٹھے پر

لکھیں ہم عیش کی تختی کو کس طرح اے جاں
قلم زمین کے اوپر دوات کوٹھے پر

کمند زلف کی لٹکا کے دل کو لے لیجے
یہ جنس یوں نہیں آنے کی ہات کوٹھے پر

خدا کے واسطے زینے کی راہ بتلاؤ
ہمیں بھی کہنی ہے کچھ تم سے بات کوٹھے پر

لپٹ کے سوئے جو اس گل بدن کے ساتھ نظیرؔ
تمام ہو گئیں حل مشکلات کوٹھے پر