EN हिंदी
رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا | شیح شیری
rahe hai aaj kal kuchh is tarah charKH-e-kuhan bigDa

غزل

رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا

مشتاق نقوی

;

رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا
مرے ہی آشیاں سے جیسے یہ نظم چمن بگڑا

کہاں گزری ہے ساری رات کچھ ہم بھی سنیں آخر
یہ رخ یہ چاندنی چھٹکی یہ تار پیرہن بگڑا

برس کر رہ گئیں کلیاں چمن کے فرش رنگیں پر
پکڑ کر شاخ جب کل شام وہ غنچہ دہن بگڑا

تری نظروں ہی تک تھا سب سلیقہ اہل محفل کا
ترے اٹھتے ہی جان حسن رنگ انجمن بگڑا

کسے آتا تھا جینا اس سے پہلے تیری دنیا میں
سنوارا ہے محبت نے مذاق روح و تن بگڑا

گلا تھا بے وفائی کا ہمیں پر ان سے کیا کہئے
وہ کہتے ہیں کہ ہے کچھ ان دنوں تیرا چلن بگڑا