رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا
مرے ہی آشیاں سے جیسے یہ نظم چمن بگڑا
کہاں گزری ہے ساری رات کچھ ہم بھی سنیں آخر
یہ رخ یہ چاندنی چھٹکی یہ تار پیرہن بگڑا
برس کر رہ گئیں کلیاں چمن کے فرش رنگیں پر
پکڑ کر شاخ جب کل شام وہ غنچہ دہن بگڑا
تری نظروں ہی تک تھا سب سلیقہ اہل محفل کا
ترے اٹھتے ہی جان حسن رنگ انجمن بگڑا
کسے آتا تھا جینا اس سے پہلے تیری دنیا میں
سنوارا ہے محبت نے مذاق روح و تن بگڑا
گلا تھا بے وفائی کا ہمیں پر ان سے کیا کہئے
وہ کہتے ہیں کہ ہے کچھ ان دنوں تیرا چلن بگڑا

غزل
رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا
مشتاق نقوی