رہبر جادۂ منزل پہ ہنسی آتی ہے
لڑکھڑاتے ہوئے اس دل پہ ہنسی آتی ہے
حسرت قربت منزل پہ ہنسی آتی ہے
اب تو دیوانگئ دل پہ ہنسی آتی ہے
یاد کر کے تری صورت تری باتیں اکثر
یوں تڑپتا ہے کہ اس دل پہ ہنسی آتی ہے
عمر گم کر کے فراہم کیا سامان حیات
اب مجھے زیست کے حاصل پہ ہنسی آتی ہے
قلزم غم میں تو ہوتے ہیں کنارے بھی بھنور
جب یہ سنتا ہوں تو ساحل پہ ہنسی آتی ہے
جگمگاتا ہے جو سورج کی شعاعوں کے طفیل
اس بھکاری مہ کامل پہ ہنسی آتی ہے
سوزؔ ہر لمحہ وہی مصلحت وقت کی بات
سن کے دیوانے کو عاقل پہ ہنسی آتی ہے
غزل
رہبر جادۂ منزل پہ ہنسی آتی ہے
سوز نجیب آبادی