رہا وہ شہر میں جب تک بڑا دبنگ رہا
مگر خود اپنے خلاف آپ محو جنگ رہا
ہوئی جو صبح تو بے برگ و بار تھے اشجار
تمام رات ہوا کا عجیب رنگ رہا
انا پسند تھا بیساکھیوں کو چھوتا کیوں
رہا وہ سرکش و باغی مگر اپنگ رہا
بجز دردید و برید اور کیا ہے اس کا مآل
وہ پھر بھی ڈور سے ٹوٹی ہوئی پتنگ رہا
سیہ جزیرہ سمندر میں آفتاب بدست
زمیں سے ٹوٹ گیا اور زمیں کا انگ رہا
دیا ہے اس نے ہمیں ایک شور بے آہنگ
ہزار سال جو دور رباب و چنگ رہا
یہ آئنہ رہا خط شکست سے محروم
سلیمؔ محو غم انتظار سنگ رہا

غزل
رہا وہ شہر میں جب تک بڑا دبنگ رہا
سلیم شہزاد