رہ نورد بیابان غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آ رہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر
تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر
تیرے قدموں سے جاگیں گے اجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزال حرم صبر کر صبر کر
شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمین خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
یہ محلات شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر کر
دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر
لہلہائیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر
کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر
درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر
دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اس کے قول و قسم صبر کر صبر کر
غزل
رہ نورد بیابان غم صبر کر صبر کر
ناصر کاظمی