EN हिंदी
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے | شیح شیری
rah jae ya bala se ye jaan rah na jae

غزل

رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے

فانی بدایونی

;

رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
تیرا تو اے ستمگر ارمان رہ نہ جائے

جو دل کی حسرتیں ہیں سب دل میں ہوں تو بہتر
اس گھر سے کوئی باہر مہمان رہ نہ جائے

اقرار وصل تو ہے ایسا نہ ہو نہ آئیں
مشکل ہماری ہو کر آسان رہ نہ جائے

اے سوز غم جلا دے اے درد خوں رلا دے
کچھ ان کی دل لگی کا سامان رہ نہ جائے

سب منزلیں ہوئیں طے محشر ہے اور اے دل
یہ ایک رہ گیا ہے میدان رہ نہ جائے

وہ جام کفر پرور بھر دے کہ مست کر دے
مستوں کے دل میں ساقی ایمان رہ نہ جائے

آ کر پلٹ نہ خالی اے مرگ جان لے جا
فانیؔ کے سر پہ تیرا احسان رہ نہ جائے