رہ گیا کم ہی گو سفر باقی
دل میں خواہش کا ہے گزر باقی
کیا ندی پھر سے آزمائے گی
کیا ابھی اور ہیں بھنور باقی
کیا اکیلے ہی آگے جانا ہے
کیا نہیں کوئی ہم سفر باقی
کیا وہ مجھ سے کبھی نہ بچھڑے گا
کیا نہیں دل میں کوئی ڈر باقی
کیا نہیں جانتا مجھے کوئی
کیا نہیں شہر میں وہ گھر باقی

غزل
رہ گیا کم ہی گو سفر باقی
سلمان اختر