رہ وفا سے میں اک گام بھی ہٹا تو نہیں
لہولہان ہوا ہوں مگر ڈرا تو نہیں
نظر میں شائبہ خوف کس لیے آئے
یہ سیل جبر ہجوم برہنہ پا تو نہیں
کھنچاؤ ہوتا ہے محسوس خوں کے قطروں میں
یہ روح عصر کہیں روح کربلا تو نہیں
عجب تناؤ ہے ماحول میں کہیں کس سے
کہیں پہ آج کوئی حادثہ ہوا تو نہیں
لبوں پہ حرف وفا ہے تو پھر نگاہوں میں
یہ خوف کیوں ہو کہیں کوئی دیکھتا تو نہیں
غزل
رہ وفا سے میں اک گام بھی ہٹا تو نہیں
افتخار اعظمی