رہ وفا کے ہر اک پیچ و خم کو جان لیا
جنوں میں دشت و بیاباں تمام چھان لیا
ہر اک مقام سے ہم سرخ رو گزر آئے
قدم قدم پہ محبت نے امتحان لیا
گراں ہوئی تھی غم زندگی کی دھوپ مگر
کسی کی یاد نے اک شامیانہ تان لیا
تمہیں کو چاہا بہرحال اور تمہارے سوا
زمین مانگی کسی سے نہ آسمان لیا
بہ احتیاط چلے راہ زندگی پھر بھی
جگہ جگہ ہمیں گرد سفر نے آن لیا
وہ بت بھی دشمن ایمان و آگہی تھا مگر
اسے جو دیکھا تو ہم نے خدا کو مان لیا
غزل
رہ وفا کے ہر اک پیچ و خم کو جان لیا
نکہت بریلوی