رہ طلب میں بنے وہ نشتر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
چبھے جو کانٹے قدم قدم پر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
کہیں نہ تھک کر رکے کوئی دم طواف بزم حبیب میں ہم
ملے ہیں دیر و حرم بھی اکثر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
جو حسرت جلوہ تھی کسی کی تو خاک اڑائی نہ کیوں گلی کی
ہمیں لگانا تھا روز چکر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
اگر بلاتا بھی اپنے گھر میں تو ہم کو رکھتا نہ وہ نظر میں
بحال مضطر بشکل ابتر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
ہوئے پریشان سب مسافر نہ نکلی صورت کوئی بالآخر
جو راہ مسدود تھی تو کیوں کر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
نظر تھی گہری کہاں کسی کی یہ راہ الفت میں کیا خبر تھی
چبھیں گے ناوک چلیں گے خنجر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
وہ عشق صادق کی پاک منزل وہ کعبہ و دیر کے مراحل
ملے تھے رستے میں ہم کو دو گھر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
ہجوم تھا مے کدے میں ایسا کہ دور کا انتظام کیسا
جو راہ پاتے تو جام و ساغر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
پھرا کئے آپ رہ گزر میں کبھی نہ ٹھہرے ہمارے گھر میں
کرم یہ کرنا تھا بندہ پرور ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
تلاش منزل بری بلا تھی نہ تھی جو قہر و غضب تو کیا تھی
جگہ جگہ ہم نے کھائی ٹھوکر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
لگا رہے ہیں فضول چکر جھکائیں سر ان کے سنگ در پر
ہم آزمائیں کبھی مقدر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
مریض الفت کا دم نکلتا نہ کچھ تگ و دو کا زور چلتا
وہ ہاتھ رکھے ہوئے جگر پر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
چرائیں کیوں آپ نے نگاہیں کہ ہو گئیں بند دل کی راہیں
مزہ تو جب تھا یہ تیر اکثر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
کہیں ہو آنا کہیں ہو جانا مگر ہے بستر یہیں جمانا
ہمیں ٹھہرنا تمہارے در پر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
مقام قرب خدا تھا مشکل مگر نہ تھی ان کو فکر منزل
ملے جنہیں نوحؔ سے پیمبر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
غزل
رہ طلب میں بنے وہ نشتر ادھر سے جاتے ادھر سے آتے
نوح ناروی