رہ خلوص میں بہتر ہے سر جھکا رکھنا
وہ سر کشیدہ اگر ہے تو سر سوا رکھنا
یہی وہ سوچ ہے جس کی تلاش تھی مجھ کو
یہ بات اپنے خیالوں سے اب جدا رکھنا
نہ قرب ذات ہی حاصل نہ زخم رسوائی
عجیب لگتا ہے اب خود سے رابطہ رکھنا
تمام شہر کو آتش کدہ بنانا ہے
دلوں کی آگ سلیقے سے جا بجا رکھنا
بڑا عجیب ہے تہذیب ارتقا کے لیے
تمام عمر کسی اک کو ہم نوا رکھنا
کمال حرص ہے جذب و طلب کی دنیا میں
بدن کو روح کی آواز سے جدا رکھنا
بلند کر کے ذرا حوصلوں کی دیواریں
دیا جلا کے ہوا کو چراغ پا رکھنا
شکست و ریخت کی دنیا میں زندہ رہنے کی
بکھر بکھر کے سمٹنے کا حوصلہ رکھنا
خود اپنی ذات پہ تنقید کے مرادف ہے
کسی کے سامنے دانستہ آئینہ رکھنا
جسے ملی ہے یہ دولت وہی سمجھتا ہے
عجیب نعمت عظمی ہے دل دکھا رکھنا
ہو جب بھی جانا کسی کے نگار خانے میں
نظرؔ خیال ذرا خد و خال کا رکھنا
غزل
رہ خلوص میں بہتر ہے سر جھکا رکھنا
جمیل نظر