EN हिंदी
رہ کہکشاں سے گزر گیا ہمہ این و آں سے گزر گیا | شیح شیری
rah-e-kahkashan se guzar gaya hama-in-o-an se guzar gaya

غزل

رہ کہکشاں سے گزر گیا ہمہ این و آں سے گزر گیا

وقار بجنوری

;

رہ کہکشاں سے گزر گیا ہمہ این و آں سے گزر گیا
کوئی بزم ناز و نیاز میں میں حد و کماں سے گزر گیا

نہ کوئی جہاں سے گزر سکے یہ وہاں وہاں سے گزر گیا
ترے عشق میں دل مبتلا ہر اک امتحاں سے گزر گیا

ترے عشق سینہ فگار کا یہ شعور قابل داد ہے
وہی تیر دل سے لگا لیا جو تری کماں سے گزر گیا

ترے حسن سجدہ نواز کا یہ کرم جبین نیاز پر
کہ ملے حرم ہی حرم مجھے میں جہاں جہاں سے گزر گیا

مرے ناصحا ترا شکریہ مرے حال پر مجھے چھوڑ دے
جو تری زمیں پر محیط ہے میں اس آسماں سے گزر گیا

یہ نظام بزم حیات کا ابھی خلفشار کی نذر تھا
وہ تو شکر ہے کہ فسانہ خواں مری داستاں سے گزر گیا

رہے قید و بند کی لذتیں کہ اذیتیں بھی ہیں راحتیں
میں قفس میں آتے ہی سرحد غم آشیاں سے گزر گیا

نہ وقارؔ دیر سے واسطہ نہ حرم سے مجھ کو کوئی غرض
کسی بے نشاں کی تلاش میں میں ہر اک نشاں سے گزر گیا