رہ جستجو میں بھٹک گئے تو کسی سے کوئی گلا نہیں
کہ ہم اس کے ہو کے نہ جی سکے وہ ہمارا بن کے ملا نہیں
مرے فکر و فن پہ محیط ہے جو تصور ایک خدا نما
ہے تلاش اس کی نہیں پتہ وہ خدا بھی ہے کہ خدا نہیں
جو ملی نہیں مجھے آگہی ہے مری نگاہ سے اجنبی
ہو رگ گلو سے قریب بھی تو یہی کہیں گے ملا نہیں
جو بصیر ہو وہ نظر بھی دے مجھے آگہی کا ہنر بھی دے
مگر اب تو میری خبر بھی دے کہ مجھے خود اپنا پتہ نہیں
ہیں شہابؔ میرے حواس گم کہ ہر ایک شب ہے شب دہم
جو بجھا تو بجھ کے ہی رہ گیا ہے چراغ پھر سے جلا نہیں

غزل
رہ جستجو میں بھٹک گئے تو کسی سے کوئی گلا نہیں
عفت عباس