EN हिंदी
رہ عشق و وفا ہے اور میں ہوں | شیح شیری
rah-e-ishq-o-wafa hai aur main hun

غزل

رہ عشق و وفا ہے اور میں ہوں

مینو بخشی

;

رہ عشق و وفا ہے اور میں ہوں
یہ تیرا نقش پا ہے اور میں ہوں

نگاہوں میں ہے زنجیر محبت
تری زلف دوتا ہے اور میں ہوں

شب آخر فضائے دل میں پھیلی
خموشی کی ردا ہے اور میں ہوں

یہی ہے مختصر سی اپنی دنیا
یہ میرا آئنہ ہے اور میں ہوں

وہی ہے ہجر کی رت کی اداسی
وہی قاتل ہوا ہے اور میں ہوں

نظر میں ہے کوئی خوں ریز منظر
کوئی زخمی صدا ہے اور میں ہوں

خدا ہی جانے ہونے والا کیا ہے
تری قاتل ادا ہے اور میں ہوں

مجھے کیا لینا دینا ہے جہاں سے
خیال دل ربا ہے اور میں ہوں

وہی ہے بادیہ پیمائی اپنی
وہی آب و ہوا ہے اور میں ہوں