رہ حیات میں وہ بھی مقام آئے گا
یگانہ کام نہ بیگانہ کام آئے گا
سرور بادۂ رنج و غم حیات کبھی
نہ کام آیا کسی کے نہ کام آئے گا
ہماری زندگیٔ مختصر کا سرمایہ
ہمارے بعد زمانے کے کام آئے گا
بدل چکی ہے فضا اب نظام عالم کی
نہ کام دانہ کسی کے نہ دام آئے گا
یقیں ہے تشنہ لبوں کو کہ ان کی محفل میں
وہ جب بھی آئے گا بادہ بہ جام آئے گا
وہ جس کی یاد ستاتی ہے رات دن فارغؔ
نہ قبل صبح نہ وہ بعد شام آئے گا

غزل
رہ حیات میں وہ بھی مقام آئے گا
لکشمی نارائن فارغ