رغبت ہے جن کو وصل کی تیرے وجود سے
تحلیل ہو رہے ہیں فضاؤں میں دود سے
مرکز بنا ہوں دیدۂ ارباب غیب کا
لایا گیا ہے مجھ کو جہان شہود سے
کافر بتا کے قتل انہیں کر دیا گیا
مرعوب ہو سکے جو نہ داغ سجود سے
کمرے میں آ کے بیٹھا ہوں اپنے بجھا بجھا
جل جل کے تیری محفل رقص و سرود سے
اک ایک نقش ابھار دوں تیرے جمال کا
آگے نکل کے فکر کی ساری قیود سے
وحشت میں نوچ کھاؤں نہ ذیشانؔ خود کو میں
چل دور مجھ کو لے کے تو میری حدود سے
غزل
رغبت ہے جن کو وصل کی تیرے وجود سے
ذیشان الٰہی