رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ
مجھی کو مجھ سے رخصت کر گیا وہ
نہ ٹھہرا کوئی موسم وصل جاں کا
متعین راہ فرقت کر گیا وہ
من و تو کی گری دیوار سر پر
بیاں کیسی حقیقت کر گیا وہ
درون خانہ سے غافل ہے لیکن
برون خانہ زینت کر گیا وہ
سر شب ہی میں اکثر جل بجھا ہوں
ہر اک خواہش کو لت پت کر گیا وہ
حوادث کا وہ تند و شوخ جھونکا
ثمر دل کا اکارت کر گیا وہ
متاع غم چھپا کر کیوں نہ رکھوں
حوالے یہ امانت کر گیا وہ
تمہیں بھی بھولنے کی کوششیں کیں
کہ خود پر بھی قیامت کر گیا وہ
سکوں آمیز لمحوں میں فریدؔ اب
فروغ رنج و محنت کر گیا وہ
غزل
رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ
فرید پربتی