EN हिंदी
رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ | شیح شیری
rafta rafta lag chuke the hum bhi diwaron ke sath

غزل

رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ

ظفر اقبال

;

رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ
حشر اپنا بھی یہی تھا ہم بھی تھے ساروں کے ساتھ

ایک ہلچل سی مچی رہتی ہے دل میں ہر گھڑی
ساتھ ہیں پیارے ہمارے ہم نہیں پیاروں کے ساتھ

لگ گئی تھی موت کی اپنی بھی چھوٹی سی خبر
آخر اپنا بھی تعلق تھا ان اخباروں کے ساتھ

آ رہی ہے ان کی خو بو اپنے اندر بھی کہیں
ہیں رعایا ہی مگر رہتے ہیں سرداروں کے ساتھ

فرض کچھ پگڑی بچانا بھی ہے لیکن ایک دن
دیکھنا سر بھی چلے آئیں گے دستاروں کے ساتھ

دور سے تو فرق ہی کوئی نظر آتا نہیں
اس طرح رل مل گئے ہیں پھول انگاروں کے ساتھ

ہو گئی ہے شکل ہی تبدیل درباروں کی اب
ورنہ ہم بھی کم نہیں وابستہ درباروں کے ساتھ

پڑ گئے تھے رائیگاں پہچان کے چکر میں ہم
اپنی مرضی سے جو ہم اڑتے نہیں ڈاروں کے ساتھ

بے تعلق بھی ہے وہ ہم نے بھی ہے اب تک ظفرؔ
رابطہ جوڑا ہوا ٹوٹے ہوئے تاروں کے ساتھ