رفتہ رفتہ درد دل یوں کم ہو جاتا ہے
میرا غم اس کی خوشیوں میں ضم ہو جاتا ہے
سانسوں کا سانسوں سے جب سنگم ہو جاتا ہے
ریشہ ریشہ روح کا تب ریشم ہو جاتا ہے
کوئی کشش ہے اس کی باتوں میں برتاؤ میں
اس کے آگے ہر چہرہ مبہم ہو جاتا ہے
یہی سوچ کر تم دل کی رکھوالی کرنا دوست
کڑی دھوپ میں یہ کاغذ بھی نم ہو جاتا ہے
جانے کیسے میرا قد اوروں کی نظروں میں
کبھی زیادہ اور کبھی کچھ کم ہو جاتا ہے
ساتھ نبھانے کی ٹھانی ہے تو یہ بھی سن لو
ان راہوں میں سایہ بھی برہم ہو جاتا ہے
جسم تھکا ماندہ ہو لیکن گھر تک آتے ہی
اک معصوم ہنسی سے تازہ دم ہو جاتا ہے
غزل
رفتہ رفتہ درد دل یوں کم ہو جاتا ہے
پون کمار