رفتہ رفتہ ڈر جائیں گے
قسطوں میں ہم مر جائیں گے
میں نے چغلی کھائی تو پھر
دشمن بھوکوں مر جائیں گے
حکمت سے عاری منصوبے
کتنوں کے در پر جائیں گے
اندر ایسی خاموشی ہے
سناٹے بھی ڈر جائیں گے
حیوانوں سے بچ کر رہیے
صحرا کو بھی چر جائیں گے
غزل
رفتہ رفتہ ڈر جائیں گے
مشتاق صدف