رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے
درہمی کچھ ایسی زیر آسماں ہونے کو ہے
پا شکستہ ہو گئے ہیں ہم کڑکتی دھوپ میں
شام غم اب دیکھیے کب اور کہاں ہونے کو ہے
بے رخی گر آپ کی اے جان جاں یوں ہی رہی
آخرش کار وفا دل پر گراں ہونے کو ہے
ڈر ہے دل آسودۂ حرماں نہ ہو جائے کہیں
آگ تھی روشن جہاں وہ خاکداں ہونے کو ہے
چشمک برق و شرر سے رات آنکھوں میں کٹی
سن رہے ہیں صبح نو اب زرفشاں ہونے کو ہے
کل تلک تو چل رہی تھی دل جلوں کی داستاں
آج ان کا ذکر زیب داستاں ہونے کو ہے
اس قدر ہے حسرت ناکام کا راہیؔ غبار
نقش پائے آرزو بھی بے نشاں ہونے کو ہے
غزل
رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے
سید نواب حیدر نقوی راہی