EN हिंदी
رفیق دوست محب مجھ کو شاق سب ہی تھے | شیح شیری
rafiq dost muhib mujhko shaq sab hi the

غزل

رفیق دوست محب مجھ کو شاق سب ہی تھے

اسلم حنیف

;

رفیق دوست محب مجھ کو شاق سب ہی تھے
اگرچہ کہنے کو یہ ہم مذاق سب ہی تھے

میں امتحان کی کاپی کو سادہ چھوڑ آیا
دماغ میں تو سیاق و سباق سب ہی تھے

تمام رات رہا دل میں حبس کا منظر
کھلے ہوئے تو در اشتیاق سب ہی تھے

اسی محل سے تھی وابستہ شہر کی عظمت
شکستہ یوں تو در و بام و طاق سب ہی تھے

ہمارا گاؤں فسادوں کی زد سے دور رہا
اگرچہ لوگ شرارت میں طاق سب ہی تھے