ربط کیسا تھا دل و دیدہ و جاں میں پہلے
تھا کوئی اور جہاں اپنے جہاں میں پہلے
دل دھڑکتا ہے تو رونے کی صدا آتی ہے
ایک ہنگامہ سا رہتا تھا مکاں میں پہلے
خاک سی اڑتی ہے سینے میں یقیں کے ہر دم
قافلے آ کے ٹھہرتے تھے گماں میں پہلے
یک بیک دل سے چھلک پڑتی تھی اک موج طرب
لذت جاں تھی عجب شورش جاں میں پہلے
اب تردد ہے تامل ہے تاسف ہے تمام
تاب تھی غم میں تمنا تھی فغاں میں پہلے
اب جو ہے گرمئ بازار تو ہم اس میں نہیں
ہم بھی تھے گرمئ بازار جہاں میں پہلے
لہلہاتا ہے جو قامت میں قیامت کا چمن
یہ سجاوٹ تو نہ تھی سرو رواں میں پہلے
صف بہ صف بندش اعضا کا برہنہ چم و خم
ایسی یورش بھی نہ دیکھی تھی جہاں میں پہلے
یہ کشش کب تھی بھلا کاف کرم میں کہ جو ہے
یہ تپش کب تھی بھلا روئے بتاں میں پہلے
غزل
ربط کیسا تھا دل و دیدہ و جاں میں پہلے
خورشید الاسلام

