ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے
اس طرف بھی مگر نظر کچھ ہے
بے خبر ہے وہ ہر دو عالم سے
جس کو اس شوخ کو خبر کچھ ہے
یاں کوئی ماجرا شریک نہیں
ہے اگر کچھ تو چشم تر کچھ ہے
مٹ گیا قصہ مر گیا عاشق
ہو مبارک تمہیں خبر کچھ ہے
جستجو ہے وہیں وہیں ہے نظر
جلوہ ریزی جدھر جدھر کچھ ہے
ہے تماشا بقدر ذوق نگاہ
دیکھتا ہوں جدھر ادھر کچھ ہے
بد بلا ہے کسی کسی کی نظر
تم نہ جانا کہ بام پر کچھ ہے
عزم سوئے عدم تو ہے رونقؔ
توشۂ راہ بھی مگر کچھ ہے
غزل
ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے
رونق ٹونکوی