EN हिंदी
ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے | شیح شیری
rabt ho ghair se agar kuchh hai

غزل

ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے

رونق ٹونکوی

;

ربط ہو غیر سے اگر کچھ ہے
اس طرف بھی مگر نظر کچھ ہے

بے خبر ہے وہ ہر دو عالم سے
جس کو اس شوخ کو خبر کچھ ہے

یاں کوئی ماجرا شریک نہیں
ہے اگر کچھ تو چشم تر کچھ ہے

مٹ گیا قصہ مر گیا عاشق
ہو مبارک تمہیں خبر کچھ ہے

جستجو ہے وہیں وہیں ہے نظر
جلوہ ریزی جدھر جدھر کچھ ہے

ہے تماشا بقدر ذوق نگاہ
دیکھتا ہوں جدھر ادھر کچھ ہے

بد بلا ہے کسی کسی کی نظر
تم نہ جانا کہ بام پر کچھ ہے

عزم سوئے عدم تو ہے رونقؔ
توشۂ راہ بھی مگر کچھ ہے