EN हिंदी
ربط بھی توڑا بنی نت کی طلب کا بیس بھی | شیح شیری
rabt bhi toDa bani nit ki talab ka base bhi

غزل

ربط بھی توڑا بنی نت کی طلب کا بیس بھی

ناصر شہزاد

;

ربط بھی توڑا بنی نت کی طلب کا بیس بھی
پتر بھی اس نے لکھے بھیجے مجھے سندیس بھی

چوکھٹا دل کا یہاں ہے ہو بہو تجھ سا کوئی
ہونٹ بھی آنکھیں بھی چھب ڈھب بھی تجھی سا فیس بھی

زیست کے پتھ پر نہیں ہونا تھا تجھ مجھ میں ملاپ
ہر جنم میں پریت نے دیکھے بدل کر بھیس بھی

پوت کی ساڑی گلابی آفتابی جسم پر
لٹ گندھی چوٹی ربن شانوں پہ سنورے کیس بھی

تجھ سے بچھڑے گاؤں چھوٹا شہر میں آکر بسے
تج دیئے سب سنگی ساتھی تیاگ ڈالا دیس بھی

بس اثاثہ ہے یہی گھر کا یہی گھر کی متاع
صوفہ اک دو بیڈ کتابیں اور اک شو کیس بھی

شاعری میں بازوؤں کے ساتھ دل بھی شل ہوا
آخرش مجبور ہو کر ہار دی یہ ریس بھی

نیچے ان جھرنوں پہ وادی میں کسے جا کر ملوں
سنگ اک سوتن کے بیری پی گئے پردیس بھی

جانتا تھا کون جیتے ہیں یہی کچھ دیکھنے
دل پہ سہ لیں گے محبت میں برہ کی ٹھیس بھی