EN हिंदी
راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے | شیح شیری
raaz hai bahut gahra baat ek zara si hai

غزل

راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے

صبا افغانی

;

راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے
وہ میں سامنے پھر بھی چشم شوق پیاسی ہے

زندگی بھی برہم ہے موت بھی خفا سی ہے
آج کل تو دونوں میں آپ کی اداسی ہے

اپنی انجمن سے ہم یہ کہاں چلے آئے
ہر طرف اندھیرا ہے ہر طرف اداسی ہے

داغ دل کو روشن کر غم کی رات ہے لمبی
شمع کا بھروسہ کیا مہ بھی بے وفا سی ہے

آپ حضرت‌ واعظ پہلے خود کو پہچانیں
کیونکہ خود شناسی ہی وجہ حق شناسی ہے

جام اس لئے اپنا آنسوؤں سے بھرتا ہوں
جس نظر سے پیتا تھا آج وہ بھی پیاسی ہے

یوں تو ہجر کی راتیں روز ہی گزرتی ہیں
آج اے صباؔ لیکن صبح سے اداسی ہے