راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے
وہ میں سامنے پھر بھی چشم شوق پیاسی ہے
زندگی بھی برہم ہے موت بھی خفا سی ہے
آج کل تو دونوں میں آپ کی اداسی ہے
اپنی انجمن سے ہم یہ کہاں چلے آئے
ہر طرف اندھیرا ہے ہر طرف اداسی ہے
داغ دل کو روشن کر غم کی رات ہے لمبی
شمع کا بھروسہ کیا مہ بھی بے وفا سی ہے
آپ حضرت واعظ پہلے خود کو پہچانیں
کیونکہ خود شناسی ہی وجہ حق شناسی ہے
جام اس لئے اپنا آنسوؤں سے بھرتا ہوں
جس نظر سے پیتا تھا آج وہ بھی پیاسی ہے
یوں تو ہجر کی راتیں روز ہی گزرتی ہیں
آج اے صباؔ لیکن صبح سے اداسی ہے

غزل
راز ہے بہت گہرا بات اک ذرا سی ہے
صبا افغانی