راز ہستی سے آشنا نہ ہوا
نہ ہوا آدمی خدا نہ ہوا
حرف رکھتا ہے جو نگاہوں پر
روبرو اس کے آئنا نہ ہوا
تو تو شہ رگ کے پاس تھا لیکن
طے ہمیں سے یہ فاصلہ نہ ہوا
رکھ دیا مجھ پہ فرض خدمت خلق
جب کوئی مجھ سا دوسرا نہ ہوا
اس کی دریا دلی خدا رکھے
عرض ہم سے ہی مدعا نہ ہوا

غزل
راز ہستی سے آشنا نہ ہوا
رام اوتار گپتا مضظر