EN हिंदी
راز ہستی سے آشنا نہ ہوا | شیح شیری
raaz-e-hasti se aashna na hua

غزل

راز ہستی سے آشنا نہ ہوا

رام اوتار گپتا مضظر

;

راز ہستی سے آشنا نہ ہوا
نہ ہوا آدمی خدا نہ ہوا

حرف رکھتا ہے جو نگاہوں پر
روبرو اس کے آئنا نہ ہوا

تو تو شہ رگ کے پاس تھا لیکن
طے ہمیں سے یہ فاصلہ نہ ہوا

رکھ دیا مجھ پہ فرض خدمت خلق
جب کوئی مجھ سا دوسرا نہ ہوا

اس کی دریا دلی خدا رکھے
عرض ہم سے ہی مدعا نہ ہوا