راز فطرت نہاں تھا نہاں ہے ابھی
آسماں سے پرے آسماں ہے ابھی
میں ازل سے سناتا رہا ہوں مگر
نامکمل مری داستاں ہے ابھی
ہم سفر چھوڑ کر چل دیے ہیں تو کیا
ساتھ میرے یہ عمر رواں ہے ابھی
عمر بھر سوئے منزل چلا ہوں مگر
فاصلہ جوں کا توں درمیاں ہے ابھی
راحتوں کے وہ دن جانے کب آئیں گے
زندگی درد کی ترجماں ہے ابھی
منزل عاشقی ہم کہاں پائیں گے
دل میں احساس سود و زیاں ہے ابھی
غزل
راز فطرت نہاں تھا نہاں ہے ابھی
شعلہ ہسپانوی