EN हिंदी
راز اپنا جو کہہ دیا تو نے | شیح شیری
raaz apna jo kah diya tu ne

غزل

راز اپنا جو کہہ دیا تو نے

محمد ولایت اللہ

;

راز اپنا جو کہہ دیا تو نے
دل ناداں یہ کیا کیا تو نے

درد دل کی نہ کی دوا تو نے
نہ سنی میری التجا تو نے

صاف ہے کس قدر یہ داد دست
دل دیا میں نے اور لیا تو نے

نذر میں نے کیا جو اپنا دل
اس کے بدلے میں کیا دیا تو نے

ہو عوض یا نہ ہو کرم ہے ترا
دل مضطر تو لے لیا تو نے

راہ پر مڑ کے کیوں مجھے دیکھا
کی محبت کی ابتدا تو نے

وعدہ کر کے جو لے لیا واپس
اے ستم گر یہ کیوں کیا تو نے

نہیں پہلو میں جب قیام و قرار
اے خدا کیوں یہ دل دیا تو نے

دل لگایا تھا ایک سے حافظؔ
اے خدا کیوں کیا جدا تو نے

مجھ کو پیدا کیا خدا تو نے
اور سب کچھ عطا کیا تو نے

تیری رحمت کا کچھ حساب نہیں
دی ہے ہر درد کی دوا تو نے

کر کے توبہ سنبھل گیا عاصی
پھر بھی اس کو بچا لیا تو نے

دی ہیں دنیا میں نعمتیں کیا کیا
اپنے بندوں کو اے خدا تو نے

پہلے بتلا دیا گناہ ہے کیا
عفو کی اس کی پھر خطا تو نے

دور پھینکا نہ بعد مردن بھی
پاس اپنے بلا لیا تو نے

رحم تیرا غضب پہ غالب ہے
کیوں بنائی سزا جزا تو نے

ناز اس نے اٹھائے اے حافظؔ
رہ کے دنیا میں کیا کیا تو نے