راتوں میں جب سنی کبھی شہنائی دیر تک
رگ رگ میں تیرے غم نے لی انگڑائی دیر تک
سنتے ہیں بزم یار میں چہرے اتر گئے
کس نے وفا کی داستاں دہرائی دیر تک
زینے سے آسماں کے اتر آئی چاندنی
آنگن میں آ کے بیٹھی تو سستائی دیر تک
اک مختصر سے لمحے نے پہچان چھین لی
یوں تو رہی ہے ان سے شناسائی دیر تک
مٹ مٹ کے نقش دل پہ ابھرتے رہے تپشؔ
زخموں سے کھیلتی رہی پروائی دیر تک
غزل
راتوں میں جب سنی کبھی شہنائی دیر تک
مونی گوپال تپش