راتیں گزارنے کو تری رہ گزر کے ساتھ
گھر سے نکل پڑا ہوں میں دیوار و در کے ساتھ
دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ دیر تک
لرزاں رہا ہے جسم بھی زنجیر در کے ساتھ
کشکول تھامتے ہیں کف اعتبار سے
کرتے ہیں ہم گداگری لیکن ہنر کے ساتھ
اب کس طرح یہ ٹوکری سر پہ اٹھاؤں میں
سورج پڑا ہوا ہے مرے بام و در کے ساتھ
سورج اسی طرح ہے یہ مہتاب اسی طرح
ڈھلتے رہے ہیں یار ہی شام و سحر کے ساتھ
یوں ہے مری اڑان پہ بھاری مرا وجود
جیسے زمیں بندھی ہو مرے بال و پر کے ساتھ
تابشؔ مجھے سفر کی روایت کا پاس تھا
سو میں بھی رہ بنا کے چلا رہ گزر کے ساتھ
غزل
راتیں گزارنے کو تری رہ گزر کے ساتھ
عباس تابش