EN हिंदी
رات قاتل کی گلی ہو جیسے | شیح شیری
raat qatil ki gali ho jaise

غزل

رات قاتل کی گلی ہو جیسے

وجد چغتائی

;

رات قاتل کی گلی ہو جیسے
چاند عیسیٰ سا بنی ہو جیسے

رات اک شب کی بیاہی ہو دلہن
مانگ تاروں سے بھری ہو جیسے

ان ہی ذروں سے ہیں لمحے مہ و سال
عمر اک ریت گھڑی ہو جیسے

ایک تنکا بھی نہ چھوڑا گھر میں
تیز آندھی سی چلی ہو جیسے

یوں امنڈتا ہے ترا غم اب تک
کوئی ساون کی ندی ہو جیسے

جس نے پتھر کا کیا ہے مجھ کو
الف لیلیٰ کی پری ہو جیسے

جانے کیسے ہیں رفیقوں کے مکاں
کوئی دشمن کی گلی ہو جیسے

اس میں غم کے نہ خوشی کے آنسو
آنکھ پتھر کی بنی ہو جیسے

اس طرح خوش ہوں کہ خوابوں میں وہی
پھول برسا کے گئی ہو جیسے

میں اسے بھول گیا ہوں ایسے
وہ مجھے بھول گئی ہو جیسے

آج کے دور میں یہ مشق سخن
مفت کی درد سری ہو جیسے