رات پھر خواب میں آنے کا ارادہ کر کے
چاند ڈبا ہے ابھی محو نظارہ کر کے
تشنگی حد سے گزر جائے گی ساحل کے قریب
فائدہ کیا ہے سمندر کا تقاضا کر کے
حیرتی ہوں ابھی ٹوٹا ہے بھرم الفت کا
دے گیا مات وہ پھر مجھ کو بہانا کر کے
کرتا رہتا تھا مذاہاً وہ بہت سی باتیں
اب رقم کرتے رہے اس کو فسانہ کر کے
مات چھل شہہ تو فقط کھیل ہے اک اس کے لئے
رکھ دیا میری محبت کو تماشہ کر کے
چھوڑ جانے کو وہ کہتا تھا پہ معلوم نہ تھا
یوں چلا جائے گا دم بھر میں پرایا کر کے
آخر اسریٰؔ تری فطرت میں یہ عجلت کیوں ہے
دیکھ لے رنج ابھی اور گوارا کر کے
غزل
رات پھر خواب میں آنے کا ارادہ کر کے
اسریٰ رضوی