رات میں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا
بند کی آنکھ تو افلاک سے لگ کر سویا
اونگھتا تھا کہیں محراب کی سرشاری میں
اک دیا سا کسی چقماق سے لگ کر سویا
ایک جلتا ہوا آنسو جو نہیں سوتا تھا
دیر تک دیدۂ نمناک سے لگ کر سویا
ان گنت آنکھیں مرے جسم پہ چندھیائی رہیں
بقعۂ نور مری خاک سے لگ کر سویا
کوزہ گر نے مرے بارے میں یہ دفتر میں لکھا
چاک سے اترا مگر چاک سے لگ کر سویا
نیند کی شرط تھی تنہا نہیں سونا مجھ کو
ہجر تھا سو اسی سفاک سے لگ کر سویا
رات کانٹوں پہ گزاری تو سویرے سوچا
کس لیے خیمۂ عشاق سے لگ کر سویا
نیند سولی پہ چلی آئی سو زخم عریاں
اپنی اک خواہش پوشاک سے لگ کر سویا

غزل
رات میں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا
رفیع رضا